پاکستان میں مہنگائی کا بحران گزشتہ کئی سال سے عوام کےلیے ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ حکومت کے حالیہ دعوؤں کے باوجود کہ مہنگائی میں کمی آ رہی ہے، عوام کی اکثریت کو اب بھی مہنگائی سے نجات نہیں ملی ہے۔ بلکہ، روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، اور متوسط اور غریب طبقے کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس (PBS) کے مطابق، جون 2023 میں افراط زر کی شرح 29.4 فیصد تھی، جو کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اشیائے خوردنوش، پٹرولیم مصنوعات، اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کےلیے زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ مثال کے طور پر، گندم کی قیمت 2022 کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے، جبکہ چینی کی قیمت میں بھی 30 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔مہنگائی کے باعث عوام کو روزمرہ کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ ایک عام گھرانے کےلیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافے نے غریب اور متوسط طبقے کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ بے روزگاری اور کم آمدنی کے ساتھ، بہت سے خاندانوں کو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے یا علاج معالجے کا خرچہ برداشت کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
متوسط طبقہ، جو کہ معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، مہنگائی کے باعث اپنے معیار زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کررہا ہے۔ بچوں کی تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کےلیے انہیں قرض لینا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف، غریب طبقہ تو بنیادی ضروریات جیسے کہ خوراک، رہائش، اور لباس کے لیے بھی ترس رہا ہے۔حکومت کی جانب سے مہنگائی میں کمی کے دعوے کیے جا رہے ہیں، لیکن عملی طور پر کوئی خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آرہے۔ سبسڈیز میں کمی، ٹیکسوں میں اضافہ، اور کرنسی کی قدر میں کمی نے مہنگائی کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کی ناکامی اور بدانتظامی نے عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔
