اسلام آباد(پبلک پوسٹ)حکومت کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں خاطر خواہ کمی کا وعدہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکا، جو اس وقت 7 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے پہلے 2 سالہ جائزے پر عملے کی سطح کے معاہدے (ایس ایل اے) پر بات چیت کر رہا ہے۔
سرکاری لیکس کے ذریعے میڈیا میں بڑے پیمانے پر یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ وزیراعظم 23 مارچ کو قوم سے خطاب میں بجلی کے نرخوں میں 8 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کریں گے، تاہم وزیر اعظم نے یوم پاکستان کی اپنی تقریر میں ایسے کسی ریلیف پیکج کا اعلان نہیں کیا۔اس کے بجائے انہوں نے بجلی کے شعبے سے متعلق ایک اجلاس کی صدارت کی، اجلاس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی توقیر شاہ اور دیگر حکام نے توانائی کے شعبے کے امور کا جائزہ لیا، اجلاس میں اویس لغاری، احد چیمہ اور محمد علی نے بھی شرکت کی۔
وزیراعظم آفس (پی ایم او) نے 15 مارچ کو اعلان کیا تھا کہ وزیراعظم نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جب کہ آئل ریگولیٹر اور پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے 13 روپے فی لیٹر کٹوتی کی گئی تھی، اس کے مالی اثرات کو بجلی کے صارفین پر منتقل کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔پی ایم او نے اعلان کیا تھا کہ بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے ایک جامع اور مؤثر حکمت عملی کے ساتھ ایک پیکیج تیار کیا جارہا ہے، تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں تبدیلی اور دیگر اقدامات سے ریلیف کے ذریعے صارفین کے لیے بڑا ریلیف پیکیج تیار ہے۔
تاہم ٹیرف پیکج کی جانچ آئی ایم ایف کی جانب سے کی جانی تھی، جو اس وقت رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں پاکستان کی معاشی کارکردگی اور 30 جون 2025 اور اس کے بعد کی مدت کے لیے آؤٹ لک کا جائزہ لینے کا عمل دیکھ رہا ہے، ایک عہدیدار نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ آئی ایم ایف کے غیر سیاسی سافٹ ویئر میں مبینہ اعداد و شمار نے کام نہیں کیا۔4 سے 14 مارچ تک کے جائزہ مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف مشن کے ساتھ ایک منصوبہ شیئر کیا گیا تھا، جس میں انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کے ذریعے کچھ بچت کی وجہ سے ٹیرف میں تقریباً 2 روپے فی یونٹ کمی کی گئی تھی۔
بعد ازاں حکام نے پیٹرول اور ڈیزل پر پیٹرولیم لیوی میں 10 روپے اضافے کے بعد فنانس ایکٹ 2025 کے تحت زیادہ سے زیادہ 70 روپے کرنے کا فیصلہ کیا تھا، تاکہ محصولات کو بجلی کے نرخوں میں زیادہ سے زیادہ ریلیف کی جانب موڑا جا سکے، اس کا ایک اثر تقریباً دو سے ڈھائی روپے فی یونٹ پڑ سکتا تھا۔ایک افسر نے کہا کہ آئی ایم ایف کو تیل کی مصنوعات پر پیٹرولیم لیوی بڑھانے اور اسے بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے استعمال کرنے پر کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے، یہ ریونیو نیوٹرل تھا، کوئی سبسڈی یا مالی اثر نہیں تھا، تاہم انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف عام طور پر یہاں چند ارب روپے کا تخمینہ لگانے اور وہاں مالی اثر پیدا کرنے کے بجائے پوری تصویر کو دیکھتا ہے۔