رپورٹ : عمران خان :ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کسٹمز پوسٹ کلیئرنس آڈٹ (PCA) کی جانب سے ایک چونکا دینے والی 127 صفحات پر مشتمل رپورٹ نے پاکستان میں لگژری گاڑیوں کی درآمد میں بدترین مالی بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ یہ رپورٹ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ اسکینڈل کے طور پر سامنے آئی ہے، جس میں اربوں روپے کے ٹیکس چوری کیے گئے۔
یہ تحقیقات دسمبر 2024 سے مارچ 2025 کے درمیان کی گئی درآمدات پر مبنی تھیں، جن میں مجموعی طور پر 1,335 لگژری گاڑیوں کی کسٹمز کلیئرنس کا جائزہ لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق، ان درآمد کنندگان نے جان بوجھ کر گاڑیوں کی قیمتیں کم ظاہر کیں تاکہ اربوں روپے کے کسٹمز ڈیوٹی اور ٹیکسز سے بچا جا سکے۔
اس تحقیقاتی رپورٹ میں ایک ایسا واقعہ درج ہے جس نے حکام کے ہوش اڑا دیے: ایک 2023 ماڈل کی ٹویوٹا لینڈ کروزر، جس کی مارکیٹ ویلیو ایک کروڑ روپے سے زیادہ تھی، اسے صرف 17 ہزار 635 روپے کی ’’فرضی‘‘ قیمت پر کسٹمز سے کلیئر کرایا گیا۔ یہ کلیئرنس مبینہ طور پر کسٹمز افسران کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔
رپورٹ سے معلوم ہوا کہ ان 1,335 گاڑیوں کی درآمدی مالیت صرف 670 ملین روپے ظاہر کی گئی، جب کہ اصل مارکیٹ ویلیو 7.25 ارب روپے سے بھی زیادہ تھی۔ اس مصنوعی کم قیمت کے نتیجے میں، درآمد کنندگان نے صرف 1.29 ارب روپے کے ٹیکسز ادا کیے، جبکہ قومی خزانے کو 18.78 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
سب سے زیادہ چونکا دینے والا انکشاف یہ ہے کہ رپورٹ کے مطابق، آڈٹ کی مدت کے دوران درآمد کی گئی تقریباً تمام لینڈ کروزرز — یعنی 99.8 فیصد — ٹیکس چوری کے لیے انڈر انوائسنگ کے ذریعے کلیئر کی گئیں۔ یہ ایک منظم دھوکہ دہی کی شکل ہے، جو نہ صرف ٹیکس چوری ہے بلکہ منی لانڈرنگ کا صاف ثبوت بھی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان درآمد کنندگان میں سے کسی ایک نے بھی یہ ثبوت فراہم نہیں کیا کہ گاڑیوں کی ادائیگی قانونی بینکاری ذرائع سے کی گئی ہو۔ اس بات نے حکام کو اس شبہے میں مبتلا کر دیا ہے کہ ان تمام گاڑیوں کی ادائیگیاں غیر قانونی ذرائع یعنی ہوالا اور ہنڈی کے ذریعے کی گئیں۔
PCA کی رپورٹ میں یہ تنبیہ بھی شامل ہے کہ ایسی منظم انڈر انوائسنگ اور بلیک منی کا استعمال نہ صرف ریونیو کے ضیاع کا سبب ہے، بلکہ پاکستان کے مالیاتی نظام اور بین الاقوامی ساکھ کو بھی شدید خطرے میں ڈال دیتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک FATF اور IMF کی شرائط پر عمل درآمد کے لیے کوشاں ہے۔
یہ رپورٹ اب فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (FMU) کو ارسال کر دی گئی ہے تاکہ معاملے کی مزید چھان بین کی جا سکے اور ذمہ دار افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔
ذرائع کے مطابق، کسٹمز افسران، درآمد کنندگان، کلیئرنگ ایجنٹس اور ممکنہ طور پر بینکنگ چینلز کے ملوث افراد کی تفصیلی فہرست تیار کی جا رہی ہے، جن کے خلاف انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ اور دیگر فوجداری قوانین کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔
ملک کے اندرونی ذرائع اس رپورٹ کو ایک ’’فنکارانہ مالیاتی جرم‘‘ قرار دے رہے ہیں، جو ایک منظم نیٹ ورک کے تحت کئی سالوں سے جاری تھا اور شاید اب بھی جاری ہے۔ رپورٹ سامنے آنے کے بعد حکومت پر بھی سخت دباؤ ہے کہ وہ اس اسکینڈل میں ملوث بااثر افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
