چین پر 100 فیصد اضافی امریکی ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد عالمی منڈیوں میں شدید مندی دیکھی جا رہی ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر چین کے خلاف سخت تجارتی اقدام کرتے ہوئے چینی درآمدات پر اضافی 100 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے، جس سے عالمی معیشت میں غیر یقینی کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔
ٹرمپ نے یہ اعلان اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر کرتے ہوئے کہا کہ نومبر سے چین سے امریکا آنے والی تمام درآمدات پر ٹیکس لاگو کیا جائے گا تاکہ امریکی مصنوعات اور مقامی صنعتوں کو غیر منصفانہ مقابلے سے بچایا جا سکے۔
امریکا پہلے ہی چینی مصنوعات پر تقریباً 30 فیصد ٹیرف عائد کر چکا ہے، لیکن اب اس شرح میں زبردست اضافہ عالمی تجارتی تعلقات کو مزید کشیدہ کر سکتا ہے۔
ٹرمپ کے اعلان کے بعد عالمی اسٹاک مارکیٹوں میں شدید مندی دیکھی جا رہی ہے ، جب کہ سرمایہ کاروں میں بے چینی پھیل گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے اثرات نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا کی سپلائی چین پر پڑ سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اس فیصلے سے کچھ گھنٹے قبل ایک طویل پوسٹ میں چین پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ دنیا بھر کے ممالک کو نایاب معدنیات کی برآمد پر پابندیوں کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ یہ معدنیات اسمارٹ فونز، الیکٹرک گاڑیوں، فوجی سازوسامان اور قابلِ تجدید توانائی کے آلات میں استعمال ہوتی ہیں اور ان کی پیداوار میں چین سب سے بڑا عالمی مرکز سمجھا جاتا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ چین دنیا کو یرغمال بنانے کی پالیسی پر گامزن ہے اور امریکا اسے کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ انہوں نے بیجنگ کے طرزِ عمل پر تنقید کرتے ہوئے واضح کیا کہ واشنگٹن اب مزید نرمی نہیں دکھائے گا۔
مزید برآں امریکی صدر نے عندیہ دیا کہ وہ اس ماہ جنوبی کوریا میں ہونے والے ایپیک (APEC) اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات نہیں کریں گے، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید کشیدگی کا اشارہ ملا ہے۔