سائبر ایجنسی کا اندرونی دھڑا اور ڈیٹا مافیاکراچی سے چلنے والا خفیہ نیٹ ورک بے نقاب

کراچی ( خصوصی رپورٹ :پبلک پوسٹ)پاکستان کی نئی قائم شدہ نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کے اندر ایک ایسا خفیہ دھڑا سرگرم تھا جو قانونی اختیارات کے نام پر غیر قانونی کال سینٹرز، ڈیٹا فروش گروہوں اور بین الاقوامی مرچنٹ فراڈ نیٹ ورکس کو تحفظ فراہم کرتا رہا—یہ انکشاف اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکا میں مقیم ایک پاکستانی نژاد شہری نے ادارے کے اعلیٰ افسران کے خلاف ڈیجیٹل فراڈ، مالی بدعنوانی اور سرکاری اختیارات کے منظم غلط استعمال کی تفصیلات نئے ڈی جی کو بھجوا دیں۔

تحقیقاتی ذرائع کے مطابق یہ معاملہ محض ایک شکایت کا نہیں، بلکہ این سی سی آئی اے کے اندر موجود “ڈیٹا منیٹائزیشن گروپ” کا ہے، جنہوں نے ایف آئی اے سے علیحدگی کے بعد حاصل ہونے والے وسیع اختیارات کو ممکنہ بھتہ، ڈیٹا ایکسیس اور جعلی چھاپہ کارروائیوں کے ذریعے باقاعدہ آمدن کے ماڈل میں بدلا۔

■ نیا زاویہ: اندرونی افسران کی “ڈیٹا مارکیٹ” سے کمائی — ضبط شدہ ڈیٹا سرفہرست کرنسی کے طور پر استعمال ہوتا رہا
ذرائع کا کہنا ہے کہ این سی سی آئی اے کے بعض افسران نے:

قانونی کال سینٹرز کے خلاف جعلی کارروائیاں

غیر ملکی شہریوں کے ڈیٹا کی ضبطگی

چھاپوں کے دوران لی گئی حساس معلومات، ای میل لاگز، کسٹمر ڈیٹیلزاور صلاحیت رکھنے والے آئی ٹی مراکز پر دباؤکو ایک منظم مارکیٹ سسٹم میں تبدیل کر دیا تھا۔ضبط شدہ ڈیٹا کو نہ صرف بیچا جاتا تھا بلکہ بعض “محفوظ کردہ” کال سینٹرز کو بطور سرمایہ فراہم بھی کیا جاتا تھا۔

امریکی شہری اشفاق احمد کی درخواست اسی پورے ماڈل کی سب سے بڑی کڑی بن کر سامنے آئی ہے۔امریکی شہری نے بڑے افسران کا کردار بے نقاب کر دیا

درخواست گزار کے مطابق:اس کے مرچنٹ اکاؤنٹس اور پورٹل کو استعمال کرتے ہوئے82,190 ڈالر کی ٹرانزیکشنز کی گئیںمگر 6,900 ڈالر کا بل ادا نہیں کیا گیابعد ازاں 58,205 ڈالر کے چارج بیک جان بوجھ کر کرائے گئےرقم امریکی شہری کے اکاؤنٹ سے کاٹی گئیاور 19,500 ڈالر کی نقد رقم پاکستان میں ہی وصول کر لی گئی

مزید حیران کن بات یہ کہ مبینہ نیٹ ورک نے پاکستانی حکام کے نام اور عہدوں کو استعمال کر کے مرچنٹ کمپنی کو غلط بیانات دیے، جس کے باعث شہری کا کریڈٹ اسکور گر گیا—اور اب اسے MATCH لسٹ میں شامل کرنے کا خطرہ لاحق ہے، جو کسی بھی کاروباری کے لئے تباہ کن ہوتا ہے۔

■ نیا اینگل: الزام صرف دو افراد پر نہیں — “کراچی چیمبر” کے اندر گروہ بندی بے نقاب

تحقیقات سے جڑے ایک اہم ذریعے نے بتایا:

“یہ صرف ڈائریکٹر ساوتھ اور بریگیڈیئر (ر) عامر نوید کا معاملہ نہیں۔این سی سی آئی اے کے اندر دو بڑے دھڑے تھے—ایک ‘آپریشنل ونگ’ اور دوسرا ‘ڈیٹا ایکسیس ونگ’—شکایت آئی ہے کہ دونوں میں سے ایک گروپ نے منافع بخش کال سینٹرز اور مرچنٹ نیٹ ورکس پر کنٹرول حاصل کر رکھا تھا۔”

یہ دھڑا بندی اس وقت مزید نمایاں ہوئی جب:لاہور اور اسلام آباد میں این سی سی آئی اے افسران کے خلاف پہلے ہی کیسز رجسٹرڈ تھےکراچی میں موجود کچھ افسران کو “پیشگی اطلاع” مل گئیاور درخواست سامنے آتے ہی متعدد افسران دفاتر سے اچانک غائب ہونا شروع ہوگئےغیر قانونی کال سینٹرز — چھاپوں کی آڑ میں ’سنگل ونڈو انکم ماڈل‘ تیارذرائع کے مطابق 2023 کے بعد کراچی میں:

برہان مرزا گروپایگزیکٹ سے منسلک ماضی کے نیٹ ورکساور کچھ میڈیکل/انشورنس پر مبنی کال سینٹرزسے الگ الگ ڈیلز کی گئیں۔ماڈل یہ تھا کہ:■ “چھاپہ → ڈیٹا ضبط → الزام → خفیہ ڈیل → ریگولر ماہانہ ادائیگی”اسی ڈیٹا کو بقول ذرائع “دوبارہ قابلِ فروخت مال” سمجھا جاتا تھا۔

امریکی درخواست کیوں سنگین ہے؟کیونکہ پہلی بار کسی غیر ملکی مرچنٹ فراڈ کے شواہد ادارے کے اندر تک جا پہنچے

یہ پہلی بار ہے کہ:ڈیٹا چوریمرچنٹ فراڈکریڈٹ اسکور کو متاثر کرنےاور بین الاقوامی مالیاتی نیٹ ورکس سے تعلقاتکی براہِ راست دستاویزات پاکستان کے ایک سائبر ادارے کے خلاف سامنے آئی ہیں۔یہ مواد این سی سی آئی اے کی ساکھ کے لئے ایک بڑا دھچکا تصور کیا جا رہا ہے۔نئے ڈی جی خرم علی — ایک مشکل ترین امتحان

اطلاعات کے مطابق:سابق ڈی جی نے اس درخواست کو منظر عام پر نہیں آنے دیامگر نئے ڈی جی کی تعیناتی کے فوراً بعد دوبارہ شکایت براہِ راست انہیں موصول ہوئیجس کے باعث ساوتھ زون کے پورے ڈھانچے کی ممکنہ ازسرِنو تحقیقات متوقع ہیںقانونی ماہرین کا تجزیہاگر الزامات ثابت ہو گئے تو:

یہ PECA 2016 کی خلاف ورزیپبلک سروس ایکٹ کے تحت اختیارات کا ناجائز استعمالاور بین الاقوامی ڈیٹا سیکیورٹی پروٹوکول کی شدید خلاف ورزیقرار پائیں گے، اور معاملہ پاکستان کی سائبر سیکیورٹی انڈسٹری کے لئے سب سے بڑا اسکینڈل ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ کیس صرف مالی فراڈ نہیں—بلکہ نئے پاکستان میں “ڈیٹا پاور” کے ناجائز استعمال کا پہلا بڑا بریک تھرو ہے

امریکی شہری کی شکایت نے پہلی بار این سی سی آئی اے کے اندر موجود پوشیدہ طاقت کے مراکز اورڈیٹا کو بطور کرنسی استعمال کرنے والے گروہ کو بے نقاب کیا ہے۔اگر تحقیقات آزادانہ ہوئیں تو ممکن ہے کہ پہلی بار یہ واضح ہو جائے کہپاکستان کے سائبر سیکیورٹی اداروں کے اندر ڈیٹا کس طرح طاقت، اثر و رسوخ اور دولت میں تبدیل ہوتا رہا۔

Check Also

عمران خان کا دورِ حکومت؛ بشریٰ بی بی اہم سرکاری فیصلوں پر اثر انداز ہوتی رہیں، برطانوی جریدہ

برطانوی جریدے نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ عمران خان کے دور حکومت …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *