کراچی؛ آرٹس کونسل میں 4 روزہ 18ویں عالمی اردو کانفرنس۔جشن پاکستان کا رنگا رنگ آغاز

کراچی:آرٹس کونسل آف پاکستان میں 4 روزہ ”اٹھارھویں عالمی اردو کانفرنس 2025۔جشن پاکستان “ کا رنگا رنگ آغاز ہوگیا۔

آرٹس کونسل میں 18 ویں عالمی اردو کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں مہمان خصوصی گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے خصوصی شرکت کی اور صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے تمام مہمانوں کا پرتپاک استقبال کیا، افتتاحی تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک کے بعد قومی ترانہ بجا کر کیا گیا اور عالمی اردو کانفرنس پر بنائی گئی شو ریل پیش کی گئی اور اس موقع پر قائداعظم محمد علی جناح کی سالگرہ اور کرسمس کا کیک بھی کاٹا گیا۔

اس سال 18ویں عالمی اردو کانفرنس کی تھیم ”جشن پاکستان“ رکھی گئی ہے اور تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے کہا کہ کراچی شہر کو منی پاکستان کہا جاتا ہے، منی پاکستان کی روح آرٹس کونسل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ ہم سب کو جوڑیں، مجھے خوشی ہے کہ سب کو جوڑنے کا آغاز عالمی اردو کانفرنس نے کیا، اردو رابطے کی زبان ہے، ہمیں فخر ہے اردو اس خطے کی زبان ہے، 15 سے 16 کروڑ لوگ اس ملک میں اردو بولتے ہیں، ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی زبان کے لیے کیا کچھ کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج بابائے قوم کی پیدائش کا دن اور کرسمس بھی ہے، ہمیں اللہ نے یہ ملک دیا ہے، طاقت سے لڑا جا سکتا ہے، 2025 میں ہم نے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کو مار گرایا ہے، پاکستان کی افواج نے یہ ثابت کر دکھایا کہ پورا ملک مل کر اپنے سے بڑے دشمن کوگرا سکتا ہے۔

صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے خطبہ استقبالیہ میں تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اردو کانفرنس ایک کہکشاں ہے یہاں پاکستانی ادیب، شاعر ، فنکار اور اداکار سب جمع ہیں، میں 20، 25برس پہلے آیا تو اس شہر میں کوئی ایسا ادارہ نہیں تھا ، پورا ہندوستان اجڑا تو یہاں ادب ،موسیقی اور فنون کے سارے بڑے لوگ یہاں آئے۔

احمد شاہ نے کہا کہ پورے پاکستان سے ہجرت ہوئی لیکن بدقسمتی سے کوئی ادارہ نہیں تھا جو ادب اور ثقافت کے لیے کام کرے۔

انہوں نے کہا کہ 18ویں عالمی اردو کانفرنس کو ہم نے ”جشن پاکستان“ کا نام دیا ہے، ہم آرٹ اور کلچر کا ادارہ ہیں، ہم ان سارے لوگوں کو منا رہے ہیں جو سب اپنے حصے کا کام کرکے چلے گئے، اس میں مصور، موسیقار، گلوکار، فلم کے ایکٹر ڈائریکٹر بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ہم نے اردو کانفرنس شروع کی تو ایک روپیہ نہیں تھا، پھر یہ سب سے زیادہ بڑی کانفرنس ہوئی جو سات دن تک چلی، دنیا بھر سے لوگ آئے، کراچی کے رہنے والوں نے اپنے دروازے کھولے، اپنے گھروں میں رکھا، کچھ کراچی یونیورسٹی کے ہوسٹل میں ٹھہرے، کچھ کی کراچی کے لوگوں نے ٹکٹیں خریدیں اور پورے شہر نے مل کر دنیا کی اتنی بڑی کانفرنس کی بنیاد ڈالی، یہاں نہ کوئی عمارت تھی اور فنڈنگ لیکن سب میں ایک جذبہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس وقت اردو کانفرنس کا بیڑہ اٹھایا جب شہر میں نفرت کی آگ لگی ہوئی تھی سینکڑوں لوگ قتل کیے جارہے تھے تب ہم نے سوچا کہ کوئی تو ہو جو محبت کی بات کرے، تلوار میں، بندوق میں بہت طاقت ہے آپ کو گولی مار دیتی ہے لیکن جو لٹریچر ،نغمے، فنون ، ستار کے سُر کی طاقت ہے اس کا اثر دیر سے ضرور ہوتا ہے مگر تادیر قائم رہتا ہے ہمارے پاس یہی ہتھیار تھے۔

معروف شاعر افتخار عارف نے کہا کہ کوئی بھی شخص جو اپنی مادری سے زبان سے محبت کرتا ہے یہ ممکن نہیں کہ وہ دوسروں کی مادری زبان سے محبت نہ کرے، یہ ہماری ضرورت اور اہمیت ہے، ہم سے زیادہ کسی نے اس زبان کے مسئلے پر نقصان نہیں اٹھایا، اب ہمیں سوچنا چاہیے، سمجھنا چاہیے ، غور کرنا چاہیے۔

ادیب و نقاد ناصر عباس نیئر نے کہا کہ ادب صرف نئے اسالیب، نئے موضوعات، نئی زبان ہی تخلیق نہیں کرتا، نئی جگہیں بھی تخلیق کرتا ہے، ادب نیا زمانہ تخلیق نہ کرسکے تو پرانے زمانے کی خستگی و فرسودگی کا احساس دلاتا ہے، ایسے میں ادب اور فنون آدمی ہی مدد کو بڑھتے ہیں۔

Check Also

کراچی: جیکب آباد کے لڑکے کا ریبیز کے باعث انتقال،سندھ میں سال بھر 21 سے زائد اموات

کراچی (پبلک پوسٹ )کراچی میں جیکب آباد کے رہائشی ایک لڑکے کا ریبیز کے باعث انتقال …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *