جناح ہاؤس حملے میں غفلت پر کور کمانڈر سمیت 3 افسران بغیر پنشن و مراعات ریٹائر کیے گئے، اٹارنی جنرل
14 افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا، ان 14 افسران کو آگے ترقی نہیں ملے گی، منصور عثمان اعوان
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
آج دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل مکمل کیے جس کے بعد آئینی بینچ نے کہا کہ کیس کا فیصلہ اسی ہفتے سنایا جائے گا۔
ملٹری کورٹس کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کی، دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے 9 مئی کو 4 گھنٹوں میں 39 فوجی تنصیبات پر حملوں کی تفصیل بیان کردی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے تحمل کا مظاہرہ کرنے والے تین فوجی افسران کو بغیر پنشن ریٹائرڈ کرنے کی تفصیل بھی بیان کردی۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت مکمل،فیصلہ محفوظ
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 9 مئی کے دن 3 بجے لیکر شام سات بجے تک چار گھنٹوں میں 39 فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے،23 فوجی تنصیبات پر پنجاب میں، 8 خیبرپختونخوا میں جبکہ سندھ میں ایک فوجی تنصیب پر حملہ ہوا، جی ایچ کیو راولپنڈی، کور کمانڈر لاہور، میانوالی ایئر فورس، فیصل آباد، سرگودھا، راولپنڈی میں آئی ایس آئی دفاتر پر حملے ہوئے، نو مئی کا پورا واقعہ منظم تیاری کیساتھ کیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 9 مئی کے دن 3 بجے لیکر شام سات بجے تک چار گھنٹوں میں 39 فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے،23 فوجی تنصیبات پر پنجاب میں، 8 خیبرپختونخوا میں جبکہ سندھ میں ایک فوجی تنصیب پر حملہ ہوا، جی ایچ کیو راولپنڈی، کور کمانڈر لاہور، میانوالی ایئر فورس، فیصل آباد، سرگودھا، راولپنڈی میں آئی ایس آئی دفاتر پر حملے ہوئے، نو مئی کا پورا واقعہ منظم تیاری کیساتھ کیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پانچ بج کر چالیس منٹ پر شام کو کور کمانڈر لاہور پر حملہ ہوا، شام پانچ چالیس سے لیکر 9 بجے تک لاہور کور غیر فعال رہی، پاکستان میں ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی ہو گئی تھی، رد عمل میں اس پارٹی نے وہ نہیں کیا جو نو مئی کو ہوا، راولپنڈی میں ایک سابق وزیراعظم کو 2007 میں قتل کیا گیا۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ جمہوریت بحالی تحریک میں ساری جماعتوں پر پابندی تھی، ایم آر ڈی کی تمام قیادت پابند سلاسل تھی، اصغر خان تین ساڑھے تین سال تک نظر بند رہے، اس دوران بھی نو مئی جیسا قدم کسی نے نہیں اٹھایا، 9 مئی کو ری ایکشن میں بھی اگر یہ ہوا تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ہمارا ملک ایک عام ملک نہیں ہے، جیوگرافی کی وجہ سے ہمیں کافی خطرات کا سامنا رہتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ سوال تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں کہ جرم نہیں ہوا، اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ 9 مئی کے جرم سے کسی کو انکار نہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ اپیل کی طرف آئیں اپیل کا بتائیں۔
اٹارنی جنرل نے استدلال کیا کہ یہ سوال نہ بھی موجود ہو اس پر بات کرنا ضروری ہے، جناح ہاوس حملہ میں غفلت برتنے پر فوج نے محکمانہ کارروائی بھی کی، تین اعلیٰ افسران کو بغیر پنشن اور مراعات ریٹائر کیا گیا، بغیر پینشن ریٹائر ہونے والوں میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک برگیڈیئر، لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 14 افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا، ان 14 افسران کو آگے ترقی نہیں ملے گی، ناپسندیدگی اور عدم اعتماد کا مطلب ہے انہیں مزید کوئی ترقی نہیں مل سکتی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا فوج نے کسی افسر کیخلاف فوجداری کارروائی بھی کی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجداری کارروائی تب ہوتی جب جرم کیا ہوتا، محکمانہ کارروائی نو مئی کا واقعہ نہ روکنے پر کی گئی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آآرمی ایکٹ واضح ہے کہ محکمانہ کارروائی کےساتھ فوجداری سزا بھی ہوگی، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے مؤقف اپنایا کہ تحمل کا مظاہرہ کرنے والے افسران کیخلاف کارروائی کی گئی۔
جسٹس اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ بھٹو کی پھانسی کے وقت لوگ گرفتاریاں دیتے تھے، لوگوں نے خود کو آگ لگائی خودسوزیاں کیں، کسی نے اس وقت پراپرٹی کو آگ نہیں لگائی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے والد نے خود بطور سیاسی کارکن مقدمات بھگتے، کبھی کسی کے ذہن میں نہیں آیا کہ پبلک پراپرٹی کوجا کر پراپرٹی کو نقصان پہنچائیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا جناح ہاوس کا گیٹ پھلانگا گیا تھا یا اندر سے کسی نے کھولا تھا؟ اگر اندر سے کسی نے کھولا تو ملی بھگت کا جرم بنے گا، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں اس کو چیک کر کے بتاوں گا کیسے ہوا تھا۔