(خصوصی تحقیقاتی رپورٹ : صباحت رضا زیدی) کراچی کے صدر کے علاقے سے ملنے والی ایک انتہائی قیمتی سیاہ رنگ کی رینج روور کے پسِ منظر نے نہ صرف ایک گاڑی کی بازیابی کا معاملہ بن کر عام شہریوں کو چونکا دیا ہے۔جبکہ ا پبلک پوسٹ کی تحقیقات کے مطابق ن تحقیقات میں سندھ پولیس کے خصوصی تفتیشی شعبے اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل کے ساتھ اب ایف آئی اے اور کسٹمز کی ٹیمیں بھی شامل ہوگئی ہیں ۔ بلکہ اس واقعے نے ایک بڑے سوال کو بھی جنم دیا: برطانیہ سے چوری شدہ گاڑی پاکستان کیسے پہنچی؟ پولیس اور بین الاقوامی ایجنسیز کے ڈیٹا نے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ یہ نقلِ و حرکت سیدھی زمینی راہ سے ممکن نہیں — اس نے ماہرین، آٹو ڈیلرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان خدشات کو جنم دیا ہے کہ کراچی میں گاڑیوں کی سمگلنگ کے پیچھے ایک منظم نیٹ ورک یا انتظامی خامی کارفرما ہو سکتی ہے۔
واقعے کا پس منظر
یہ رینج روور نومبر 2022 میں برطانیہ کے شہر ہیروگیٹ سے چوری کی گئی تھی۔ بعد ازاں رواں سال 11 فروری 2025 کو صبح 6 بج کر 34 منٹ پر گاڑی کا ٹیلی میٹکس ماڈیول کورنگی سروس روڈ، اعظم بستی (صدر کے قریب) میں آخری بار فعال پایا گیا۔ اکتوبر 2025 میں یہ معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا جب انٹرپول نے ایف آئی اے اور سندھ پولیس کو ایک خط کے ذریعے گاڑی کی موجودہ لوکیشن فراہم کی اور تعاون کی درخواست کی۔
تحقیقات: کیا کہا پولیس نے؟
کراچی پولیس کے اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل (اے وی ایل سی) کے سربراہ ایس ایس پی امجد احمد شیخ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ برطانیہ سے گاڑی کی زمینی منتقلی کا امکان عملی طور پر ناممکن ہے۔ ان کے بقول یہ گاڑی غالباً کسی بحری راستے سے پاکستان منتقل کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انٹرپول کی جانب سے فراہم کردہ ابتدائی ٹریکنگ ڈیٹا صرف ایک موقعے کی موجودگی دکھاتا ہے جو تحقیقات کے لیے ناکافی ہے۔ اسی وجہ سے برطانوی حکام سے مکمل ٹریکنگ لاگ طلب کیا گیا ہے تاکہ گاڑی کی نقل و حرکت، داخلے کے وقت اور ممکنہ راستوں کا تفصیلی جائزہ لیا جا سکے۔
شواہد اور ادارہ جاتی تعاون
اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل کے مطابق، اس کیس میں پاکستان کسٹمز، وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) اور انٹرپول سمیت تمام متعلقہ ادارے تحقیقات میں شامل ہیں۔ مقامی تفتیشی ٹیمیں صدر اور اطراف کے علاقوں میں مشکوک گاڑیوں کی تلاش میں مصروف ہیں۔ کراچی پولیس نے شہر بھر کے تمام تھانوں اور تفتیشی افسران کو ہدایت کی ہے کہ اگر سیاہ رنگ کی رینج روور نظر آئے تو فوری طور پر اس کا چیچس نمبر چیک کیا جائے۔
خدشات: انتظامی خامی یا منظم نیٹ ورک؟
کراچی پولیس کے خصوصی تفتیشی شعبے اے وی ایل سی کی اب تک کی تحقیقات کے مطابق امپورٹڈ گاڑیوں کی کلیئرنس کے لیے ایک جامع اور مربوط نظام موجود ہے، جس میں کئی سطحوں پر چیکنگ کی جاتی ہے۔ ان کے مطابق، اگر کسی سطح پر معمولی کمی بھی رہ جائے تو گاڑی بندرگاہ سے باہر نہیں نکل سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پورے واقعے کے پیچھے یا تو کسی سنجیدہ انتظامی خامی کا عنصر ہے یا پھر ایک مضبوط نیٹ ورک یا گینگ کارفرما ہے، کیونکہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہو سکتا۔
اے وی سیل ایل حکام کے مطابق چوری شدہ گاڑیوں کے یہاں پہنچنے کے واقعات کسی فرد یا اتفاقی غلطی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک پورے نظام یا سرپرستی کے تحت ممکن ہوتے ہیں۔ انہوں نے متعلقہ حکام سے اپیل کی کہ وہ مخلص کاروباری طبقے اور عوام کے مفاد میں ایسے راستوں کو بند کریں۔ ان کے مطابق، اگر کوئی ڈیلر اپنے شوروم میں ایسی گاڑی رکھے جس کے کاغذات مکمل نہ ہوں، تو وہ ایک گھنٹہ بھی اپنا کاروبار جاری نہیں رکھ سکتا۔ اس لیے سرکاری سطح پر سخت اقدامات اور مؤثر نگرانی ضروری ہے۔
سابقہ رجحانات اور متبادل راستے
تحقیقات کے مطابق ماضی میں چوری شدہ یا نان کسٹم پیڈ گاڑیاں بلوچستان کے چمن کے راستے سے ملک میں داخل ہوتی تھیں۔ تاہم جب وہ راستہ بند ہوا تو نوشکی اور ڈارمندن جیسے دیگر راستوں کا استعمال شروع ہوا۔ ان راستوں سے گاڑیاں پہلے کوئٹہ پہنچتی ہیں اور پھر ملک کے مختلف حصوں میں منتقل کر دی جاتی ہیں۔ بعض کیسز میں ایسی گاڑیوں کو پرزہ جات کی صورت میں بھی فروخت کیا جاتا رہا ہے تاکہ شناخت ممکن نہ رہے۔
ٹیکنالوجی کا کردار اور سیف سٹی منصوبہ
ایس ایس پی امجد شیخ نے اس موقع پر سیف سٹی منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ نظام نمبر پلیٹس کی خودکار جانچ کے ذریعے مشکوک گاڑیوں کی نشاندہی کرے گا۔ اگر کسی گاڑی کا نمبر یا رجسٹریشن مشکوک پایا گیا تو خودکار الرٹ جاری ہو گا۔ ان کے مطابق، یہ نظام چند ماہ میں مکمل طور پر فعال ہو جائے گا اور اس کے بعد چوری شدہ یا غیر قانونی گاڑیوں کی شناخت اور روک تھام میں بڑی مدد ملے گی۔
جاری تحقیقات اور اہم سوالات
پولیس، ایف آئی اے اور کسٹمز کی تحقیقات اس بات پر مرکوز ہیں کہ گاڑی نے سمندر یا بندرگاہ کے ذریعے کس راستے سے ملک میں داخلہ حاصل کیا؟ کیا اس کے لیے جعلی دستاویزات تیار کی گئیں؟ اگر ایسا ہوا تو کن افسران یا محکموں کی غفلت شامل تھی؟ کیا یہ ایک بڑے سمگلنگ نیٹ ورک کا حصہ ہے؟ اور برطانوی حکام سے ملنے والا مکمل ٹریکنگ ڈیٹا کس حد تک اس معاملے کو واضح کر سکتا ہے؟
تفتیشی اقدامات اور آئندہ لائحہ عمل
تحقیقات میں شامل ادارے برطانوی حکام سے مکمل ٹیلی میٹکس لاگ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پورٹ اور کسٹمز کے ریکارڈ کی جانچ کر رہے ہیں۔ ممکنہ بندرگاہوں، شپنگ کمپنیوں، کلیئرنس ایجنٹس اور آٹو ڈیلرز کے مالی ریکارڈز کی چھان بین بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ سیف سٹی کیمرہ نیٹ ورک کے ڈیٹا کا تجزیہ بھی آئندہ مرحلے میں کیا جائے گا۔
نتیجہ — ایک وارننگ برائے انتظامیہ
یہ واقعہ صرف ایک گاڑی کے چوری ہونے کا نہیں بلکہ ایک خطرناک رجحان کا اشارہ ہے۔ اگر چوری شدہ قیمتی رینج روور جیسے ماڈل باآسانی پاکستان پہنچ سکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ سمگلنگ نیٹ ورک پہلے سے کہیں زیادہ منظم اور فعال ہیں۔ انتظامیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی نگرانی اور بارڈر کنٹرول سسٹمز کو سخت کرے، ورنہ یہ صورتحال غیر قانونی تجارت کے لیے مزید راستے کھول سکتی ہے۔
آئندہ اقدامات (صحافتی تجاویز)
ایف آئی اے، کسٹمز اور پولیس سے حاصل شدہ دستاویزات کی فراہمی کو عوام کے سامنے لایا جائے، سیف سٹی لاگز کے فعال ہوتے ہی ان کا تجزیہ کیا جائے، اور مشکوک ڈیلرز یا مارکیٹس کی خفیہ تحقیقات کو رپورٹنگ کا حصہ بنایا جائے۔ ساتھ ہی، برطانوی حکام کے ساتھ بین الاقوامی تعاون اور قانونی پیش رفت کی تفصیلات شفاف انداز میں سامنے لانے کی ضرورت ہے۔