کراچی میں پانی چوری کا اربوں روپے کا کاروبار،واٹر مافیا کے سامنے ادارے بے بس بحریہ ٹاؤن 13 ارب 85 کروڑ کا نادہندہ

روشنیوں کا شہر کراچی اس وقت پانی مافیا کے شکنجے میں جکڑا جا چکا ہے

، جہاں زیر زمین پانی کی چوری اربوں روپے کے غیر قانونی کاروبار میں تبدیل ہو چکی ہے۔ شہر کے سب سے بڑے نادہندہ بحریہ ٹاؤن پر 2017 سے اب تک 13 ارب 85 کروڑ روپے واجب الادا ہیں، مگر سپریم کورٹ میں 64 بورز کا اعتراف کرنے کے باوجود ایک روپیہ بھی ادا نہیں کیا گیا۔ حیران کن طور پر واٹر کارپوریشن گزشتہ آٹھ سال سے صرف تماشائی بنی ہوئی ہے۔ذرائع کے مطابق شہر بھر میں صرف 70 کمپنیوں کو بورنگ کے لائسنس جاری کیے گئے، مگر 1200 سے زائد مقامات پر غیر قانونی بورنگ جاری ہے۔ کورنگی میں ایک کمپنی نے 44 غیر قانونی بور کر کے اردگرد کی فیکٹریوں کو پانی فروخت کرنا معمول بنا لیا ہے، جبکہ تین ہٹی پل کے نیچے، لیاری اور ملیر ندی کے اطراف درجنوں طاقتور گروہ کھلے عام زیر زمین پانی نکال کر بیچ رہے ہیں، نہ لائسنس، نہ اجازت نامہ، مگر کاروبار عروج پر ہے۔مافیا سالانہ تقریباً 10 ارب روپے کا پانی چوری کر رہا ہے، جبکہ واٹر کارپوریشن کو صرف ساڑھے پانچ کروڑ روپے کی آمدن ہو رہی ہے۔ باقی ساری رقم مافیا اور کرپٹ افسران کی جیبوں میں جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق واٹر کارپوریشن کے افسران نے قانونی کارروائی کے بجائے ’انڈر ڈیلز‘ کو ترجیح دی، حتیٰ کہ کسی غیر قانونی کمپنی کو شوکاز نوٹس تک جاری نہ کیا گیا۔ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ زیر زمین پانی کی بے دریغ چوری سے کراچی کی زمین کھوکھلی ہو رہی ہے، جس سے نہ صرف زمین بیٹھنے (Land Subsidence) بلکہ زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات کا بھی شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔شہریوں کا کہنا ہے کہ جب پانی جیسا بنیادی انسانی حق بھی مافیا کے ہاتھوں لوٹا جا رہا ہے، تو پولیس، واٹر کارپوریشن اور عدالتیں کیوں خاموش ہیں؟ کیا یہ تمام ادارے خود بھی اس گھناؤنے کھیل کا حصہ ہیں؟شہر کی بقا اور مستقبل کے لیے فوری اور مؤثر کارروائی ناگزیر ہو چکی ہے، ورنہ کراچی صرف پانی کے بحران کا نہیں، بلکہ ایک ماحولیاتی سانحے کا شکار ہونے جا رہا ہے۔

Check Also

ن لیگ سے لفظی جنگ؛ پیپلز پارٹی کا وزیراعظم سے ملاقات کرکے معاملہ اٹھانے کا فیصلہ

پیپلز پارٹی نے ن لیگ سے لفظی جنگ کا معاملہ وزیراعظم کے سامنے اٹھانے کا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *